میر یوسف عزیز مگسی
سامراج دشمن تاریخ کا ایک اہم بلوچ ہیرو
31مئی 1935 میں کوئٹہ پر اس وقت قیامت صغریٰ ٹوٹی جب ایک ہولناک زلزلے نے ہزاروں کی تعداد میں کوئٹہ کے باسیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ان ہزاروں کی تعداد میں مرنے والوں میں بلوچستان کی تاریخ کا ایک ایسا روشن و تابندہ ستارہ بھی ڈوب گیا تھا جو بر طانوی سامراج کے خلاف جہاں مزاحم کا استعارہ تھا تو ساتھ میں اس وقت کی ریاست قلات کے کرتا دھرتاؤں کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف بھی سب سے بلند آواز تھی۔ حیران کن طور پر اس شخصیت نے فقط ستائیس برس کی عمر میں وہ نام کمایا کہ ’’زمیندار‘‘ اخبار کے ایڈیٹر اور مزاحمتی صحافت کے سر خیل مولانا ظفر علی خان نے انہیں منظوم خراج تحسین پیش کیا ۔ خطہ بلوچستان کی یہ نامور شخصیت میر یوسف مگسی تھے جو 27برس کی عمر پانے کے بعد کوئٹہ کے قیامت خیز زلزلے میں خالق حقیقی کو پیا رے ہو گئے تھے۔ مولانا ظفر علی خان اس بلوچ ہیرو کو کچھ اس طرح منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہیں
تم کو خفی عزیز ہے، ہم کو جلی عزیز
عارض کا گل تمہیں، ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظِ بلوچ مہر و و فا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز
یوسف علی عزیز مگسی ایک درویش منش، تعلیم یافتہ اور سامراج دشمن شخص تھے۔ نامور بلوچ دانشور شاہ محمد مری کے مطابق یہ اس قدر بے لوث،محنتی اور فیصلہ کن شخص تھا کہ میں اعتماد کے ساتھ بیسویں صدی کے پہلے نصف کے بلوچستان کو یوسف علی مگسی سے منسوب کر سکتا ہوں کیونکہ اس کا اس عہد پر زبردست اثر ہے۔ یہ روشن خیال اور اصلاح پسند شخص سب سے پہلے ریاست قلات کے وزیر اعظم شمس شاہ کے خلاف جدو جہد کا علم لے کر کھڑا ہوا۔مگسی صاحب نے لاہور کے ایک اخبار ’’مساوات ‘‘ میں نومبر 1929میں ’’فریاد بلوچستان‘‘ کے نام سے مضمون میں ریاست قلات میں ابتری اور بد نظمی کے بارے میں رقم کیا۔
اس مضمون میں ریاست قلات کے وزیر اعظم شاہ شمس کی سفاکانہ پالیسیوں کو مگسی صاحب نے بے نقاب کیا۔اس مضمون کی اشاعت سے شمس شاہ اس قدر سیخ پا ہوا کہ کہ انہیں ملتان سے گرفتار کر کے مستونگ لا یا گیا۔میر یوسف عزیز مگسی تقریباً ایک سال سے زائد کا عرصہ قید و بند میں گزارنے کے بعد جب رہا ہوئے تو انہوں نے شمس شاہ کے خلاف جدو جہد کو نئے سرے سے شروع کیا۔
انہوں نے شمس شاہ کی پالیسیوں اور بے اعتدالیوں کے خلاف 64 صفحات کی ایک ہنگامی اشاعت بنام ’’شمس گردی ‘‘ شائع کی۔ میر یوسف عزیز نے ’’شمس گردی‘‘ ضمیمہ لاہور سے شائع کروایا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل بلوچستان اینڈ آل بلوچستان کانفرنس کے عنوان کے تحت دو بڑی کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ پہلی کانفرنس 1932 میں جیکب آباد (سندھ) میں منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس کے شروعات میں جب بگٹی قبیلے کا ایک وفد اپنے سردار کے خلاف مظالم کی فریاد لے کر میر یوسف مگسی کے سامنے پیش ہوا تو میر صاحب نے بے باکی کے ساتھ مظلوم بگٹیوں کی حمایت کی اور سردار محراب خان بگٹی کا چندہ یہ کہہ کر واپس کر دیا یہ چند ہ دراصل رشوت ہے تاکہ میں اور میری تنظیم مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر سکیں۔
اس اعلیٰ پائے کی شخصیت نے بلوچستان کی محرومیوں پر اسی کانفرنس میں ایک خوبصورت نظم بھی پڑھی جس کے چند اشعار بلوچستان کی زبوں حالی کا ماتم کرتے نظرآتے ہیں:
خزاں رسیدہ ہے مدت سے گلستان بلوچ
نوائے بلبل نالاں ہے نوحہ خواں بلوچ
جمود ایسا کہ آثار زندگی مفقود
جہاں سے ہے نرالا مگر جہان بلوچ
مگسی صاحب کی ایک فارسی نظم ’’آہ فغان سرداران بنام سرکار برطانیہ ‘‘ ہے۔ اس نظم میں میر صاحب نے بتایا کہ سردار برطانوی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کے حضور فریاد کناں ہیں۔ وہ یوسف ہر الزام لگاتے ہیں کہ کہ وہ آقا اور غلام کی تمیز نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ ایسا شخص جو حقوق سرداری کا دشمن ہے لازماً برطانیہ کا بھی دوست نہیں ہے۔
مولانا ظفر علی خان نے بلوچستان کے بارے میں اپنے اخبار میں مضامین لکھنا شروع کئے تو میر یوسف مگسی کی حمایت میں زبردست مہم چلائی۔ انگریز حکمران اس صورت حال سے گھبرا گئے اور انہوں نے یوسف عزیز مگسی پر اپنی سرزمین چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ برطانوی راج کے خلاف یوسف عزیز مگسی سیسہ پلائی دیوار کی طرح مزاحم رہے، اور انہوں نے جلا وطن ہونے سے انکار کر دیا۔ تاہم احباب کے مشورے پر وہ ایک سال کے لئے لندن چلے گئے۔
میر یوسف عزیز مگسی 31 جنوری 1935 کو وطن واپس آئے اور دوبارہ سے اپنی سامراج دشمن جدو جہد کا علم بلند کیا۔ لیکن بلوچستان کی سر زمین کا یہ بطل حریت فقط چند ماہ بعد کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے میں ملک عدم کا راہی ہو گیا اور یوں بلوچستان کی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوا۔ اپنے عزم، استقامت، جد وجہد اور کرد ار عمل سے یوسف عزیز مگسی تاریخ پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔
عرض مصنف: میر یوسف عزیز مگسی کے بارے میں یہ معلومات ڈاکٹر شاہ محمد مری کی تصنیف ’’بلوچ ۔نو آبادیاتی عہد” سے حاصل کی گئی ہیں۔
No comments:
Post a Comment